Chapter No.13 “Faithfulness”

Faithfulness 

Translations of paragraphs
(1)           ایک مرتبہ حضرت عمر مسجد نبوی میں بیٹھے ریاست
کے معاملات میں مصروف تھے۔  دو نوجوان آدمی
تنومنددیهاتی کوپکڑے ہو ئے ان کے سامنے حاضر ہوئے انہوں نے حضرت عمر سے شکایت کی
کہ اس شخص نے ان کے بوڑھے باپ کو قتل کردیا۔ انہوں نے قاتل کو اس کے جرم کی سزا
دلاتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا 
(2)            خلیفہ نے نوجوان آدمی کی طرف دیکھا اور فرمایا
ہے ”تم اپنے خلاف لگایا گیا الزام سن چکے ہو تمہیں اپنے دفاع میں کیا کہنا ہے؟ دیہاتی
نے جواب دیا ۔اے امیرالمومنین میں لگائے گئے الزام کااعتراف کرتا ہوں ۔  میں اپنے پیارے اونٹ کے ساتھ جارہا تھا جب میں
ایک باغ میں پہنچا اور آرام کیلئے  روکا
اونٹ نے ایک درخت کی لٹکی  ہوئی  شاخ  سے
چند پتے توڑ کر کھائے یہ دیکھ کر بوڑھےآدمی نے ايك پتھر اٹھايا اوراپنی پوری طاقت
سے اونٹ کودے مارا۔ جو اونٹ کے سر کی ایک جانب گا۔ یہ لڑکھڑایا  اور مر کر نیچے گر پڑا۔ اونٹ مجھے بہت پیاراتھا
میں اپنا غصہ قابو نہ کر سکا۔ بس میں  نے
وہی پتھر اٹھایا جس سے میرے پیارے اونٹ کو ماراگیا  اور اپنی پوری طاقت سے بوڑھےآدمی کو دے مارا
پتھر بوڑھے آدمی  کے سر میں لگا اور وہ
نتیجتاً مر گیا ۔  اس پر یہ دو نوجوان میرے
پاس آئے اور میں نے خود کو ان کے حوالے کر دیا ۔ 
(3)       خلیفہ :۔ جیسا کہ تم اپنا
جرم  قبول کر چکے ہو تو گواہوں کی ضرورت
نہیں۔ اس لئے  تمہیں موت کی سزا دی جاتی
ہے۔ 
دیہاتی :۔  " میں سزا قبول
کرتا ہوں لیکن آپ سے عمل درآمد میں تین دن کی تاخیر چاہتا ہوں۔  
خلیفہ :۔ تم سزاکی  عمل درآمد میں
تاخیر کیوں چاہتے۔ 
دیہاتی :۔ میراوالداپنی  وقت وفات
میں میرے چھوٹے بھا ئی کیلئے سونا چھوڑ گیا تھا۔ جوابھی اتنا چھوٹا ہے کہ اس جگہ
کے بارےمیں نہیں بتایا جا سکتا۔
(4)                 جہاں میں نے اسے چھپایا ہواہے ۔  میں نے ایک کھیت میں زمین میں اسے دفن کیاہے اور
کوئی اس جگہ  کو نہیں جانتا۔ اگر میرا بھائی
میری موت کی وجہ سے اپنا واجب حصہ نہیں 
حاصل کرپاتا تو روز آخرت میں مجھ سے بے ایمان ہونے کی وجہ سے پوچھ گچھ ہو
گی ۔ 
خلیفہ ؛۔  کیا کوئی ایسا ہے جو
تمہاری ضمانت کے طور پر کھڑا ہو سکے  اور
اگر تم واپس نہ آ سکو تو پھر موت کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو ۔ 
دیہاتی
:۔ دربار میں موجود لوگوں کی طرف دکھتے ہوئے اور حضرت ابوذرغفاری کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے کہا یہ معزز آدمی میری ضمانت دے گا ۔ 
(5)           خلیفہ :۔   (ابوذرغفاری سے مخاطب ہوتے ہوئے) کہا آپ  ضمانت کے لیے رضامند ہیں۔  حضرت ابوزرغفاری :۔  جی ہاں  میں ہوں۔ حضرت ابوذر غفاری ایک معزز صحابی تھے۔
خلیفہ نے انہیں ضمانت کے طور پر قبول کر لیا دونوں مدعا بھی اس پر رضامند ہو گئے
اور مجرم کو جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ تیسرے دن کی صبح طلوع ہوئی مدعیان اور ضامن
مسجد نبوی  میں موجودتھے وہ مجرم کا انتظار
کررہے تھے جسے وقت گزرتا گیا صحابہ حضرت ابوذر غفاری  کی قسمت کے متعلق بے چین ہونے لگے جب صرف ایک
گھنٹہ  رہ گیاتو دونوں مدعی آگے بڑھے اور
حضرت ابوزرغفاری سے ان کےآدی کا مطالبہ  کیا۔
(6)                 حضرت ابوذرغفاری :۔  تھوڑا انتظار کریں ابھی وقت رہتا ہے اگر وہ واپس
نہیں آتا تو انصاف پور ا کرنے کیلئے میں اس کی جگہ اپنی جان دے دوں گا ۔ خلیفہ 
:۔  اس صورت میں اگرقاتل واپس نہیں
آتا تا توقانون اپنا تقاضا پورا کرے گا۔ یہ سن کرصحابہ کرام حضرت ابوزر غفاری کی حفاظت
سے متعلق اور بے چین  ہو گئے اور ان کی
آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی ۔کسی نے مدعا سے   خون بہا کی قیمت وصول کرنے کی درخواست کی لیکن
انھوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا ہمارا مطالبہ زندگی کے بدلے زندگی کا ہے۔ 
(7)          جب پورا در باراس ذہنی
کشمکش میں   تھا ۔ دیہاتی سر تا پاؤں پسینے میں شرابور وہاں
پہنچا ۔ جیسے ہی وہ داخل ہوا اس نے خلیفہ کو سلام کیا اور کہا خد کے فضل و کرم
سےاپنے چچا کو سونے کا امین بنانے  كے قابل
ہواجيسا کے آپ دکھتے ہیں کہ میں  وقت پرآگیا
ہوں تو عمل درآمد میں تاخیر نہ کی جائے
 (8)             دربار میں موجودہ سب لوگ مجرم کی
ایمان داری اور سچائی پر حیران رہ گئے ۔  حضرت
ابو ذر غفاری :۔ اے امیر المومین یہ آدمی ! میرے لئے با لکل اجنبی تھا میں اس
سے پہلے نہ اس کا واقف تھا اور نہ کبھی دیکھا تھا لیکن جب مجھے تمام حاضرین میں سے
اس نے مجھے ضامن کے طور پر منتخب کیا میں راضی ہو ئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اگر وہ واپس
نہ آتا  تو خوشی سے اس کی جگہ اپنی جان
قربان کر دیتا ۔ جناب جب آپ ایک ا جنبی کی ضمانت پر رضا مندہوئے  تو یہ مردانگی اور شجاعت کے تمام اصولوں کے خلاف
ہوتا کہ میں اپنی جان بچانے کیلئے آپ کی جان خطرے میں ڈال دیتا ۔ 
مدعیان
باہمی رضا مندی سے :"اے امیرالمومین ہم  اسے معاف کرتے ہیں۔ اسے زندہ چھوڑ دیا جائے۔
" یہ الفاظ سنتے ہی دربار میں موجودسامعین  نے خوشی اور داد و تحسین کے نعرے لگائے اور خلیفہ
کا چہرہ  خوشی سے چمک اٹھا اور انہوں  نے فرمایا: نوجوانوں خون بہاکی رقم آپ کو بیت المال
سے ادا کی جائے گی اور اخدا آپ  کو روز
قیامت اس اچھا ئی کا صلہ دے ۔ "انے امیرالمومنین ہم اسے معاف کرتے ہیں کیوں
کے معانی خدائی  صفت ہے اس لیے ہم باعزت کوئی
 خون بہا کی  رقم لینے سے انکار کرتے ہیں ۔
Question /
Answers of the Chapter 
Q:1-     What
case did the young men bring to Hazrat Umar Farooq?
Ans:-    Two
young men brought a villager to Hazrat Umar (R.A) who had killed their father.
Q:2-     Why
did the old man hurl stone at camel?
Ans:-    The
old man hurled a stone with anger at the camel because it had nipped a few
leaves of a hanging branch of a tree.
Q:3-     Why
did the villager ask Hazrat Umar Farooq (R.A) to delay the execution?
Ans:-    The
villager wanted to delay the execution because he had buried some gold in a
field which belonged to his younger brother he wanted to hand over the gold to
the trustee.
Q:4-     On
what condition was the criminal allowed to leave?
Ans:-    The
caliph allowed him to leave after presenting. Hazrat Abuzar Gaffari as a
surety.
Q:5-     Why
were Sahabas (R.A) worried?
Ans:-    When
the villager was a little bit late sahabas became worried about Hazrat Abuzar
Gaffari who was standing there as the villager's surety.
Q:6-     Why
did the accusers forgive villager?
Ans:-    The
accusers were greatly impressed by honesty and faithfulness of the villager. So
they forgave him.
Post a Comment