Chapter
No.12 “Three days to see”
![]() |
| Three Days to see |
Translations of paragraphs
(1) بعض
اوقات میں نے سوچا ہے کہ زندہ رہنے کے لے یہ شاندار اصول ہو گا کہ جیسے ہم کل مر
جائیں گے ایسا رویہ زندگی کی اقدار کو تیزی سے نمایاں کرے گا ہمیں ہر دن شائستکی
،خوش و جذبہ اور تعیریف کے شوق کے ساتھ گزارنا چاہیے جو اکثر کھو جاتا ہےجب وقت
ہمارے سامنے آنے والے دنوں ،مہنوں اور سالوں کے مسلسل منتظر میں کی صورت میں پھیل
جاتا ہےیقینا بہت سے لوگ تو عیش پر ستی کے اس اصول کو اپنائیں گے ۔کھاؤ پیو اور
موج اڑاؤ ۔ لیکن بہت سے لوگ سر پر کھڑی یقینی موت سے نفس کشی کریں گے۔
(2) کہانیوں میں عام طور پر ایک شکست
خور دہ ہیرو آخری لمحے میں قسمت کی کسی ضرب سے بچ جاتا ہے لیکن ہمیشہ اس کی اقدار
کا شعور تقریبابدل جاتا ہےیہ اکثر دیکھا گیا ہے وہ زندگی کے معنی اور اس کی مستقل
روحانی اقدار کا زیادہ قدر دان بن جاتا ہے یہ اکثر دیکھا گیا ہے جو زندہ رہتے ہیں
یا موت کے سائے میں زندہ رہ چکے ہیں وہ ہر کام میں ہلکی سی مٹھاس لے آئے ہیں جسے
وہ انجام دیتے ہیں ۔
(3) میں شاید تصور کرتے ہوئے بہتر طور
پر وضاحت کر سکتی ہوں کہ مجھے زیادہ کیا دیکھنا پسند کرنا چاہیے اگر مجھے صرف تین
دن میری آنکھوں کو استعمال کرنے کے لیے دیے جائیں ۔پہلے دن میں ان لوگوں کو دیکھنا
چاہوں گی جن کی رحمدلی ،شائستگی اور دوستی نے میری زندگی کو رہنے کے قابل بنا دیا
ہے ۔
(4) اگلے دن ،میری بصارت کےدوسرے دن
میں پوپھٹنے کے ساتھ ہی بیدار ہو جاؤں گی اور اس سنسنی خیز معجزے کو دیکھوں گی جس
سے رات دن میں تبدیل ہوتی ہے میں زندگی کے اس شاندار منظر کو حیرت کی ساتھ دیکھوں
گی ۔جس سےسورج سوئی ہوئی زمین کو بیدار کرتا ہے ۔
(5) یہ دن میں ماضی اور حال کی دنیا
کی تیز جھلک کے لیے وقف کروں گی میں زمانوں کی عکس بندی میں انسان کی ترقی کا
تماشہ دیکھنا چاہوں گی اتنا سب کچھ ایک دن میں کیسے سمٹ سکتا ہے یقینا عجائب گھروں
کے ذریعے ۔
(6) اگلی صبح میں نئی خوشیوں میں بے
تابی کے ساتھ پوپھٹنے کا استقبال کروں گی
۔کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ جو اہل بصارت ہیں جو حقیقتا دیکھتے ہیں ان کے لیے ہر صبح
خوبصورتی کا ایک مکمل طور پر نیا انکشاف ہو گا یہ میرے معجزے کی شرائط کے مطابق
میری بصارت کا تیسرا اور آخری دن ہو گا۔
(7) خواہشات کے پچھتاوے پر ضائع
کرنے کے لے میرے پاس وقت نہیں ہو گا دیکھنے کو بہت کچھ ہےپہلا دن میں نے اپنے جان
دار اور بے جان دوستوں کے لیے وقف کیا دوسرے دن مجھ پر انسان کی تاریخ اور فطرت
عیاں ہوئی آج میں روز مرہ کا روبار زندگی پر جانے والے انسانوں کی بسیر گاہوں کے
درمیان بسر کروں گی نیویارک کے علاوہ انسانوں کی سر گرمیوں اور حالات کے متعلق
کوئی کہاں تلاش کر سکتا ہے لہذا یہ شہر میری منزل بنتا ہے ۔
کبھی کبھار میں نے
دریافت کرنے کے لیے اپنے صاحب بصارت دوستوں کا امتحان لیا ہے کہ وہ کیا دیکھتے ہیں
حال ہی میں میری ایک اچھی دوست مجھے ملنے آئی جو حال ہی (8) میں جنگل کی ایک لمبی سیر سے
واپس آئی تھی میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے کیا مشاہدہ کیا تھا کچھ خاص نہیں اس نے جواب
دیا اگر میں ایسے جوابات کی عادی نہ ہوتی تو میں شاید یقین نہ کرتی بہت عرصہ پہلے
میں قائل ہوگئی تھی کہ صاحب بصارت بہت کم دیکھتے ہیں ۔
(9) یہ کیسے ممکن تھا میں نے خود سے
سوال کیاکہ جنگل میں ایک گھنٹہ چہل قدمی کی جائے اور کوئی بھی قابل دید چیز نہ
دیکھی جائے میں اگر چہ نہیں دیکھ سکتی تھی تو اپنے لیے دلچسپی کی سینکڑوں چیزیں
صرف چھو کر تلاش کر لیتی ہوں میں ایک پتے کی نازک ساخت محسوس کرتی ہوں میں سر مئی
رنگ کے صنوبر کے درخت کی ہموار چھال اور پائن کے درخت کی لمبے بالوں والی کھردری
چھال سے پیار سے اپنے ہاتھوں کو گزراتی ہوں ۔بہار میں کلی کی تلاش میں ،میں درختوں
کی شاخوں کو امید کے ساتھ چھوتی ہوں جو موسم سرما کی نیند کے بعد فطرت کو بیدار
کرنے کی علامت ہے امیں ایک پھول کی مخملی ساخت کو چھو کر خوشی محسوس کرتی ہوں اور
اس کے مختلف خم دریافت کرتی ہوں اور فطرت کے معجزے کی کوئی چیز مجھ پر عیاں ہوتی
ہے ۔کبھی کبھار اگر قسمت میرا ساتھ دے تو میں ایک چھوٹے سے درخت پر نرمی سے اپنا
ہاتھ رکھتی ہوں اور گائے ہوئے پرندے کی خوش آئند تھر تھرا ہٹ محسوس کرتی ہوں ایک
چشمے کے ٹھنڈے پانی کو اپنی کھلی انگلیوں سے گزرتا دیکھ کر میں بہت خوش ہوتی
ہوںمیرے لیے پائن کے کانٹوں کا سر سبز قالین یا مسام دار گھاس ایک آرام دہ ایرانی
قالین ہے زیادہ خوش آئند ہے میرے لیے موسموں کا نظارہ ایک سنسنی خیزاور نہ ختم
ہونے والاڈرامہ ہے جو عمل میری انگلیوں کے پوروں میں سے گزرتا ہے ۔
(10) اگر میں ایک یونیورسٹی کی صدر ہوتی تومیں لازمی نصاب مرتب کرتی کہ (اپنی آنکھوں کا استعمال کسیے کیا جائے )پروفیسر اپنے شاگردوں کودکھانے کی کوشش کرر گا کہ وہ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی میں خوشیوں کا اضافہ کیسے کر سکتے ہیں جو بنا دیکھے ان کے سامنے سے گز ر جاتا ہے وہ ان کی خوابیدہ اور سست صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرے گا۔
answer the following
Questions:
Q.1: Why is arising of the sun so
special for the author?
Ans: She wants to see thrilling miracle
in which night is transformed into day. She also wants to see the magnificent
panorama of life with which the sun awakens the sleeping earth.
Q.2: What does the revelation of beauty
mean to her?
Ans: She can feel the beauty of nature.
The dawn of each day must be perfectly new revelation of the beauty for her.
Q.3: Why had she not time to waste in
longings?
Ans: She has no time to waste in regret
for longing as there is so much to see.
Q.4: Explain the difference between the
facilities and opportunities?
Ans: Facilities mean relaxation given
to a person and opportunities mean a chance given to a person to prove himself.
Q.5: Who was Helen Keller?
Ans: She was an author and lecturer.
She was deaf and blind since her infancy, during her life she received awards of great
distinction. She showed there are no boundaries to courage and faith.
Q.6:
Describe the thought expressed by the author in first paragraph?
Ans:
The author thought that it would be an excellent rule to live each day as if we
should die tomorrow. Such an attitude would emphasize the values of life.
Q.7:
What makes you feel that the author is sad and depressed?
Ans:
The author’s pensive thought about people who have eyes yet do not see makes us
feel that she is sad and depressed.
Q.8:
How do you get an impression that the Hellen Keller was a great admirer of
nature?
Ans:
She admires the rising sun. She can feel the symmetry of a leaf. She touches
the branches of tree in search of bud. She can feel the velvety texture of a
flower, All this shows that she was great admirer of nature.
Q.9:
People who are deprived of sight not devoid of imagination discuss referring to
the text.
Ans:
Hellen Keller was deprived of sight but she had better imagination than the
people who can see. Although she could not hear and see but she could describe
her feelings in great detail.
Q.10:
To me the pageant of seasons is an unending drama comment?
Ans: The way the seasons change, the
nature changes its shape, it is really a drama. Every season brings something
new. The people who really use their sense can find hundreds of things admirable.
-------------------------------------- > People also Search
for! < -------------------------------------
ü Free Download 9th
English Chapter No.1 notes pdf
ü Free Download 9th
English Chapter No.2 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.3 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.4 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.5 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.6 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.7 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.9 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.10 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.11 notes pdf
ü
Free Download 9th
English Chapter No.12 notes pdf
----------------------------------------
> English Grammar Portion < ----------------------------------------
ü Free Download 9th
English Letters notes pdf
ü Free Download 9th
English Applications notes pdf
ü Free Download 9th
English Stories Notes pdf
ü Free Download 9th
English Stanza Notes pdf
ü Free Download 9th
English Summaries notes pdf
ü Free download 9th
English Solved MCQs notes pdf
----------------------------------------
> You May like! < ----------------------------------------
ü 10 Best Wordpress
Hostings of 2022: Which One Is Right For You?
ü 11 Useful Chrome
Extensions For Digital Marketers and Creators
ü 10 FREE But Awesome
Affiliate Marketing Tools & Software
ü Helpful Time
Management Tools
ü The Importance of
Personal Time Management
ü 8 Simple Steps to
Improve Your Time Management
ü What is Cryptocurrency
and how to make money from it
ü 3 Steps To Getting
Listed In The Search Engines
ü 3 Steps To Getting
Hundreds Of Backlinks To Your Website Absolutely FREE

Post a Comment